غزہ میں اسرائیل کی بے مثال نسل کشی کے نتیجے میں، جس میں اب تک تقریباً 60 ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں، یورپ میں صہیونیت مخالف جذبات کی لہر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے اور دو ریاستی حل کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی سطح پر زیر بحث آ گیا ہے۔ فرانس کے وزیر اعظم امانوئل میکرون نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ ان کا ملک آئندہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔
اسی طرح برطانیہ کے وزیر اعظم پر بھی ان کے ملک کی حکومت اور ایک تہائی ارکانِ پارلیمنٹ کی طرف سے دباؤ ہے کہ وہ غزہ میں انسانیت سوز حالات کے پیش نظر فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کریں۔
فلسطین کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مسئلہ فلسطین کی تاریخی پیش رفت پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
فلسطین سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد، فلسطین کا کنٹرول برطانیہ کے سپرد کر دیا گیا۔
جیسے جیسے فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت میں اضافہ ہوتا گیا، عربوں اور یہودیوں کے درمیان تناؤ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ پہلی بار، فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مسئلہ ایک سرکاری برطانوی کمیشن کی طرف سے پیش کیا گیا۔
“کمیشنِ شاہی برائے فلسطین” 1936ء کے بڑے پیمانے پر ہنگاموں اور یہودی مہاجرین، مقامی عرب شہریوں اور فلسطینیوں کی طرف سے جبری ہجرت کو روکنے کے مطالبے کے تناظر میں، لارڈ رابرٹ پیل کی صدارت میں تشکیل دیا گیا۔
1937ء میں، فلسطینی عربوں کی چھ ماہ طویل ہڑتال کے چند ماہ بعد، برطانیہ اس نتیجے پر پہنچا کہ فلسطین پر تسلط جاری رکھنا بہت مہنگا اور دشوار ہو چکا ہے، اور اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔
“کمیٹیِ ملی فلسطینی عرب” نے ہڑتال کے خاتمے کے لیے تین مطالبات پیش کیے:
یہودیوں کی ہجرت پر پابندی
عرب زمینوں کی ملکیت یہودیوں کو منتقل کرنے پر پابندی
ایک قومی حکومت کا قیام، جو نمائندہ کونسل کے سامنے جواب دہ ہو
“پیل کمیشن” نے فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی ابتدائی تجویز پیش کی:
ایک یہودی اکثریتی علاقہ
ایک عرب اکثریتی علاقہ
اور ایک غیرجانبدار کوریڈور جو برطانیہ کے زیر اقتدار ہو، اور جس میں یروشلم بھی شامل ہو
عربوں اور یہودیوں نے اس تجویز پر مختلف ردعمل دیا۔ عربوں نے یک زبان ہو کر اس منصوبے کو مسترد کیا، جب کہ صہیونی کانگریس نے اگرچہ فلسطین کی تقسیم کے اصول سے اتفاق کیا، لیکن مخصوص نقشے سے اختلاف کیا۔
چونکہ مسئلہ حل نہ ہو سکا، 1947ء میں برطانیہ نے مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے سپرد کر دیا۔ اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کرتے ہوئے فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظوری دی۔
اس منصوبے کے مطابق:
فلسطین کو ایک یہودی ریاست (56.5 فیصد رقبہ) اور ایک عرب ریاست (43.5 فیصد رقبہ) میں تقسیم کیا جانا تھا
یروشلم کا انتظام اقوام متحدہ کے سپرد کیا جانا تھا
فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔ وہ اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ اپنی سرزمین کا زیادہ تر حصہ یہودی مہاجرین کو دے دیں۔
اس کے برعکس، یہودیوں نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا، سڑکوں پر جشن منایا اور خوشی کا اظہار کیا۔
چند ماہ بعد، 14 مئی 1948 کو برطانیہ نے فلسطین سے اپنی قیمومیت ختم کر دی اور اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ اسی دن ڈیوڈ بن گوریون نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ اگلے ہی دن، پانچ عرب ممالک (مصر، لبنان، شام، اردن، عراق) کی افواج فلسطین کی مدد کے لیے داخل ہوئیں اور اعراب و اسرائیل کی پہلی جنگ چھڑ گئی، جو جنوری 1949 تک جاری رہی۔
چند ماہ بعد جنگ بندی ہوئی، اور عربوں کی شکست کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطین کے مزید علاقے پر قبضہ کر لیا اور اپنے کنٹرول میں موجود زمین کا تناسب 78 فیصد تک پہنچا دیا۔
یوں اسرائیل نے نہ صرف وہ علاقے اپنے قبضے میں لے لیے جو اقوام متحدہ نے اسے دیے تھے بلکہ مزید 26 فیصد زمین پر بھی قبضہ کر لیا۔ اردن نے بھی 21 فیصد زمین پر قبضہ کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کر لیا۔ یروشلم دو حصوں میں تقسیم ہو گیا:
اردن نے مشرقی حصہ، جس میں پرانا شہر بھی شامل تھا، سنبھال لیا
اسرائیل نے مغربی حصہ اپنے قبضے میں لے لیا
مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا
18 سال بعد، چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مصر، اردن اور شام کی افواج کو شکست دی، اور نہ صرف پورے فلسطین پر بلکہ:
شام کے جولان کی پہاڑیوں
مصر کے صحرائے سینا
اور اردن کے مغربی کنارے بشمول یروشلم
پر بھی قبضہ کر لیا۔ فلسطینیوں کا اپنی سرزمین پر کوئی عملی اختیار باقی نہ رہا۔
اس وقت سے لے کر آج تک دو ریاستی حل کو مختلف شکلوں میں بارہا پیش کیا گیا۔ اگرچہ 1960 تا 1980 کے عشرے میں فلسطینی مزاحمتی گروہ اور تنظیم آزادی فلسطین (PLO) نے چریکی جنگیں اور مسلح کارروائیاں کیں، لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی نہ ملی، بلکہ بہت سے ممالک نے PLO کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔
یاسر عرفات، جو سوویت یونین اور عرب ممالک جیسے شام، عراق اور لیبیا کی حمایت سے مستفید تھے، 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اپنی روایتی حمایت سے محروم ہو گئے۔ PLO نے 1969 میں پورے فلسطینی علاقے میں ایک دو قومی ریاست کی تجویز دی، جو اسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول تھی کیونکہ اس سے اسرائیل کی موجودہ حیثیت ختم ہو جاتی۔
اسی ماحول میں، PLO اور اسرائیل کے درمیان خفیہ مذاکرات ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں شروع ہوئے۔ ستمبر 1993 میں، یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے تحت:
یاسر عرفات نے اسرائیل کو تسلیم کیا
اور اسرائیل نے PLO کو فلسطینی عوام کا قانونی نمائندہ تسلیم کیا
1994 میں فلسطینی خودمختار انتظامیہ (PA) قائم ہوئی، جو پانچ سالہ عبوری حکومت کے طور پر تھی۔ اس کا انتظام مغربی کنارے کے کچھ حصوں اور غزہ کی پوری پٹی پر تھا۔ تاہم 2007 میں غزہ حماس کے کنٹرول میں جانے کے بعد، فلسطینی انتظامیہ کا کنٹرول صرف مغربی کنارے تک محدود ہو گیا۔
اوسلو معاہدے کے مطابق:
شہری علاقوں میں داخلی سلامتی اور سول امور PA کے سپرد کیے گئے
دیہی علاقوں میں صرف سول امور PA کو دیے گئے
تمام دیگر علاقے (یہودی بستیاں، وادی اردن، سڑکیں) اسرائیل کے مکمل کنٹرول میں رہے
مشرقی یروشلم اس معاہدے سے مستثنیٰ رکھا گیا
آج اسرائیل دو ریاستی حل کی مخالفت کیوں کرتا ہے؟
دو ریاستی حل، جس کا مقصد ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تھا، ماضی میں اسحاق رابین، ایہود باراک اور ایہود اولمرت جیسے بعض اسرائیلی رہنماؤں کی طرف سے ایک ممکنہ حل کے طور پر قبول کیا گیا تھا، لیکن حالیہ برسوں میں، خاص طور پر دائیں بازو کی حکومتوں جیسے بنیامین نیتن یاہو کے دور میں، یہ مخالفت اسرائیلی پالیسی کا مرکزی نکتہ بن گئی ہے۔
اس مخالفت کی کئی وجوہات ہیں:
سلامتی کے خدشات:
2005 میں اسرائیل نے جب غزہ سے انخلاء کیا، تو حماس کی حکومت قائم ہوئی اور راکٹ حملے بڑھے۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے دشمنوں کا اڈہ بن سکتی ہے۔ دائیں بازو کی حکومتیں اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔
نظریاتی و مذہبی وجوہات:
مذہبی جماعتیں اور یہودی آبادکار مغربی کنارے کو “یہودیوں کی مقدس سرزمین” سمجھتے ہیں اور اس کا فلسطینیوں کو دینا دینی خیانت تصور کرتے ہیں۔
بستیاں اور آبادکاری:
آج مغربی کنارے میں تقریباً 7 لاکھ اسرائیلی آباد ہیں، جو دو ریاستی حل کو عملی طور پر تقریباً ناممکن بنا دیتے ہیں۔ ان علاقوں سے پیچھے ہٹنا اسرائیلی حکومت کے لیے ایک سیاسی و سماجی خودکشی کے مترادف ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں اور بعض ممالک کی سفارتی کوششیں 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے جاری ہیں، لیکن اسرائیل مسلسل مزید علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کو جبری بے دخل کر کے، یہودی بستیاں آباد کر کے، عبوری حقیقت کو مستقل صورتحال میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس وقت 700,000 سے زائد اسرائیلی شہری، جو اسرائیلی آبادی کا تقریباً 10 فیصد بنتے ہیں، 150 سے زائد قانونی و غیرقانونی بستیوں میں مغربی کنارے میں رہائش پذیر ہیں۔