بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے تھانہ ہنہ سے 40 سے 45 کلومیٹر دور سنجیدی ڈیگار نامی علاقے میں ایک انسانیت سوز واقعے سامنے آیا جس نے سوشل میڈیا کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
نور نامی 35 سالہ خاتون اور 50 ساہ احسان اللہ کو ایک گروہ نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ احسان اللہ کو 9 گولیاں لگیں جبکہ نور بی بی کو سات گولیاں لگیں جس کی وجہ سے دونوں ہی موقع پر جاں بحق ہوگئے۔
واقعے سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ عید سے تین چار دن قبل پیش آیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ اس ویڈیو میں تمام لوگ براہوی زبان میں بات کر رہے ہیں جو کوئٹہ اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہے۔
پہاڑی مقام پر کچی سڑک کے اردگرد ویرانہ ہے جہاں متعدد ویگو ڈالے اور جیپیں دیکھی جا سکتی ہیں جن کے کئی افراد موجود ہیں۔
سرخ لباس اور گندمی چادر میں ملبوس خاتون کو گاڑیوں سے کچھ دور کھڑا ہونے کا کہا جارہا ہے۔ اس دوران خاتون براہوی زبان میں کہتی ہیں کہ ’صرف گولی کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘ جس کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہیں کہ ہاں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے۔
اس مکالمے کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ’قرآن مجید ان کے ہاتھ سے لے لو‘۔ یہ واضح نہیں ہے کہ قرآن خاتون کے ہاتھ میں تھا یا مرد کے جبکہ اس کے ساتھ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’خاموشی خاموشی۔‘ اس کے ساتھ ایک مرد گالیاں بھی دیتا سنائی دیتا ہے۔
خاتون کوئی مزاحمت نہیں کرتیں اور خاموشی سے گاڑیوں سے دور کھڑی ہو جاتی ہیں۔ چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے اور پھر ایک، ایک کر کے چند گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ پھر یہ آواز آتی ہے کہ ‘اُس کو مار دو’، جس پر بہت زیادہ گولیاں چلانے کی آواز آتی ہے۔
اس کلپ کے وائرل ہوتے ہی سوشل میڈیا پر قبائلی جرگہ کے نظام پر کھل کر تنقید شروع ہوگئی ہے۔ دل دہلا دینے والے اس کلپ نے جہاں لوگوں کو اداس کردیا ہے وہیں اس کلپ میں موجود مقتولہ کی جرات اور آخری جملوں نے پاکستان میں خواتین کی آزادی پر گفتگو کے نئے باب وا کردیئے ہیں۔
بلوچستان کے سرکاری زرائع نے بھی اس واقعے پر دلی افسوس کا ظہار کرتے ہوئے تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور متعدد افراد کو گرفتار کرنے کا دعوی بھی کیا ہے۔
ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوپائی ہے کہ مقتول جوڑا رشتہ ازدواج سے منسلک تھا یا نہیں۔ سوشل میڈیا پر مختلف زرائع نے مختلف زاویہ سے اس واقعے پر بحث کی ہے۔ کسی نے انکی حمایت کی ہے تو کسی نے مخالفت۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جرم چاہے جتنا بڑا ہوا سزا دینے کا حق عدلیہ کو ہے نہ کہ گلی محلے کے جرگوں اور پنچائتوں کو۔
ایک اور چیزجو اس سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ کیا یہ گرفتاریاں اس طرح کے واقعات کے سدباب کے لئے کافی ہیں؟
ہونا تو یہ چاہئے کہ قبائلی جرگوں اور عوامی پنچائیت کے نظام کو حکومتی رٹ کے زریعے پاکستان کے آئین اور قانون کا سختی سے پابند بنایا جائے تاکہ مستقبل میں مزید ایسے واقعات جنم نہ لیں۔
اداریہ
ابوالفضل رضوی