الجزیرہ چینل نے اسرائیل کے خلاف حالیہ جنگ میں ایران کی جانب سے دیے گئے شدید نقصانات کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران کی فتح نے مزاحمت اور صہیونیت مخالف اسلامی بیانیے کو تقویت بخشی ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ صہیونزم — جو ایک جعلی اور انسان دشمن منصوبہ ہے — کی نابودی پہلے سے کہیں زیادہ قریب آ چکی ہے۔
الجزیرہ نے اپنی تازہ تحلیلی رپورٹ میں 12 روزہ جنگ کے نتائج کا جائزہ لیا ہے جس میں صہیونی قابضین کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تجزیے کے مصنف مراکشی ماہر اور لکھاری “عیاد ابلال” ہیں، جنہوں نے اس جنگ کے صہیونزم پر اثرات اور اس منصوبے کے زوال کے قریب آنے پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔
ایران صرف اسرائیل نہیں بلکہ پورے مغربی ـ امریکی اتحاد سے لڑا
یہ جنگ منگل 24 جون 2025 کو اُس وقت رکی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا۔ جنگ شروع ہونے کی وجوہات اور اس دوران ہونے والے واقعات سے قطع نظر، ایک بات طے ہے کہ اسرائیل کو ایران کے ہاتھوں شدید نقصان اٹھانا پڑا — تل ابیب، حیفا، بیر السبع اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں زبردست تباہی ہوئی۔ اس صورتحال میں اسرائیل نے پس پردہ امریکہ، عرب ممالک اور مغربی اتحادیوں سے اپیل کی کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے۔
صہیونی میڈیا اپنی شکست کی حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتا رہا اور جھوٹے دعوے پیش کرتا رہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران، جو ابتدا میں شدید حملوں کی زد میں آیا، کئی اہم عسکری کمانڈرز اور ایٹمی سائنسدانوں کی قربانی دینے کے باوجود ایک بڑی فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ خاص طور پر اس لیے کہ ایران صرف اسرائیل سے نہیں، بلکہ مغربی ـ امریکی اتحاد سے برسرِپیکار تھا۔ مغربی طاقتیں اسرائیل کو اسلحہ، فوجی سازوسامان، انٹیلیجنس اور اقوام متحدہ و عالمی اداروں میں سفارتی پشت پناہی فراہم کر رہی تھیں، مگر ایران تنہا ان سب کے خلاف ڈٹا رہا۔
ایران نے اسرائیلی فوج کی کمزوری اور اس کے دفاعی نظام کی ناتوانی کو بےنقاب کیا۔ اس نے خطے میں اسرائیل کی مبینہ عسکری برتری اور ناقابلِ شکست ہونے کے طلسم کو توڑ ڈالا۔ یہ خود ایک ایسی کامیابی تھی جس نے صہیونی استعمار کے خلاف عرب ـ اسلامی بیانیے اور مزاحمتی سوچ کو بےمثال تقویت دی۔
جنگ رک گئی، لیکن سیاسی معرکہ جاری ہے
ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست عسکری ٹکراؤ تو فی الحال رک گیا ہے، اور امکان ہے کہ ایران اور امریکہ و یورپی ممالک کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہو۔ تاہم امریکہ اب اس خطے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھانے میں کوئی فائدہ نہیں دیکھ رہا، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے، اور وہ نہ ایٹمی توانائی ایجنسی سے تعاون کرے گا نہ ہی اپنے میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتہ کرے گا۔
صہیونی بیانیے کی عالمی سطح پر کمزوری
مستقبل کی جنگ، روایتی میدانوں کے بجائے “بیانیوں” کے محاذ پر لڑی جائے گی۔ ایک طرف ایران کا بیانیہ ہے جو استعمار اور قبضے کو مسترد کرتا ہے، اور دوسری جانب مغرب کا بیانیہ ہے جو امن، انصاف اور سچائی کا دعویدار ہے، لیکن عملی طور پر ان سب اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس لیے اب اصل فتح اُس فریق کو حاصل ہو گی جو اس بیانیاتی جنگ میں غالب آئے گا۔
ثقافتی مطالعے اور نوآبادیاتی استعمار کے خاتمے کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیانیہ کی فتح کا دارومدار اندرونی عوامل پر زیادہ ہوتا ہے بنسبت بیرونی اسباب کے۔ اور جب صہیونی جرائم بےنقاب ہو چکے ہیں اور خود امریکہ و یورپ میں بہت سے یہودی صہیونزم سے نفرت و انزجار کا اظہار کر رہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ اسرائیل کا بیانیہ اب کیسے غالب آ سکتا ہے؟
صہیونزم کے خلاف نفرت کا آغاز 1948 کے “یوم النکبہ” سے ہوا — یعنی جب فلسطین پر صہیونی قبضے کا آغاز ہوا۔ باوجود اس کے کہ اسرائیل اور اس کے مغربی حمایتی بھرپور پروپیگنڈا کرتے رہے، لیکن صہیونی منصوبہ کبھی عالمی سطح پر قابلِ قبول نہیں ہو سکا۔ خاص طور پر اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی “طوفان الاقصیٰ” کی مزاحمتی جنگ کے بعد صہیونی چہرہ دنیا کے سامنے مزید بےنقاب ہو گیا، جس سے عالمی بیداری کی نئی لہر نے جنم لیا۔
صہیونیوں کی سب سے بڑی شکست
آج عالمی صہیونزم مخالف تحریک، ایران پر اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت کو صہیونی مظالم کے تسلسل کا ایک اور حلقہ قرار دیتی ہے، اور نتیجتاً سب سے بڑا نقصان اسرائیل کو ہی پہنچا ہے، جس کی عوام کو وزیراعظم نیتن یاہو کی جھوٹی امیدوں اور سیاسی عزائم کا ایندھن بنایا گیا۔
ایران نے صہیونیوں کے لیے خوابوں کو کابوس میں بدلا
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کو سمجھنے کے لیے دونوں ممالک کے پیچیدہ تاریخی تعلقات کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ 1979 میں شاہی حکومت کے خاتمے اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران و اسرائیل کے تعلقات میں تناؤ کا آغاز ہوا۔ اس سے قبل شاہ ایران کی پالیسیوں کی بدولت دونوں کے درمیان گہرے تعلقات تھے۔
اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے فلسطین کی حمایت اور صہیونزم کی مخالفت کو مرکزی پالیسی قرار دیا، جس سے اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی، کیونکہ اس نے عرب ممالک کو پہلے ہی باہر نکال کر اپنی طاقت منوا رکھی تھی۔
ایران کا مستقل موقف: یہود سے نہیں، صہیونزم سے جنگ
ایران نے کبھی مذہبی بنیادوں پر یہود سے دشمنی کا اعلان نہیں کیا۔ ایران میں آج بھی ایک بڑی یہودی برادری موجود ہے۔ ایران کی مخالفت صہیونزم اور امریکی استعمار سے ہے۔ اسی لیے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کا راستہ اسرائیل اور امریکہ سے مکمل الگ ہو گیا اور یہ عرب ـ اسلامی محاذ کا حصہ بن گیا۔
اس دوران ایران نے حزب اللہ (لبنان)، انصار اللہ (یمن)، حشد الشعبی (عراق) اور شامی مزاحمتی قوتوں کی حمایت کی، جب کہ اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف سازشوں اور حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
سائبر حملے اور نیوکلیئر سائنسدانوں کے قتل
2004 میں ایران کے پرامن نیوکلیئر پروگرام کے اعلان کے بعد اسرائیل کی سازشیں تیز ہو گئیں۔ 2010 میں اسرائیل نے امریکی مدد سے اسٹاکس نیٹ وائرس کے ذریعے ایرانی نیوکلیئر نظام کو نقصان پہنچایا۔ 2020 تا 2025 کے درمیان متعدد سائبر حملے اور ایرانی نیوکلیئر سائنسدانوں کا قتل ہوا۔
ایران کی مزاحمتی قوت اور فتح
ان تمام حملوں کے باوجود ایران نے اپنی عسکری اور انٹیلیجنس صلاحیتوں کو مسلسل ترقی دی اور حالیہ جنگ میں اپنی طاقت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اسرائیل اور امریکہ کی ساری منصوبہ بندی ناکام ہو گئی۔
صہیونزم کے خلاف یہودی مفکرین کی آواز
دنیا بھر میں خود کئی ممتاز یہودی دانشور صہیونزم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان میں البرٹ آئن اسٹائن، زیگموند فرائیڈ، ہانا آرنت، نوام چومسکی، ایلان پاپے، نورمن فنکلستائن، رچرڈ فالک، یشایاہو لیبوویتز اور آرمر برگر جیسے نام شامل ہیں، جنہوں نے صہیونزم کو جھوٹا، ظالمانہ اور انسانیت دشمن منصوبہ قرار دیا۔
جنگِ ایران: صہیونزم کے زوال کا آغاز
صہیونزم کے خلاف ان آوازوں نے ایک عالمی تحریک کو جنم دیا ہے۔ ایران پر اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بعد صہیونزم کی کمزوری مزید واضح ہو گئی ہے۔ اس جنگ نے وہ سب نقاب اتار دیے ہیں جو مغرب اور اسرائیل نے اوڑھ رکھے تھے۔ یہاں تک کہ وہ مفکرین اور مؤرخین بھی جنہوں نے کبھی اسرائیل کی حمایت کی تھی، اب اپنا موقف بدل چکے ہیں — مثلاً معروف یہودی تجزیہ کار پیٹر بنارڈ نے CNN کو دیے گئے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ اسرائیل اب مظلوم نہیں بلکہ ایک جارح ریاست ہے۔
گزشتہ برس پرنسٹن یونیورسٹی میں منعقدہ کانفرنس میں نورمن فنکلستائن نے کہا: “اسرائیل اب پہلی بار اپنے وجودی بحران سے دوچار ہے۔” صہیونزم کا زوال اب ایک تاریخی حقیقت بنتا جا رہا ہے — اور ایران کے ساتھ حالیہ جنگ نے اس کے زوال کی رفتار کو مزید تیز کر دیا ہے۔