اسرائیل کے جنگی جنون کا نتیجہ: مہنگائی، قرض،جمود ، معکوس ہجرت،عدم اطمینان اورمایوسی
اکتوبر 2023 میں غزہ پر تباہ کن جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل کی معیشت شدید بحران میں داخل ہو چکی ہے۔ دو سالہ جھڑپوں، مسلسل بمباری اور علاقائی کشیدگی نے اس رژیم کی سیاحت، ٹیکنالوجی اور زراعت کی صنعت کو مفلوج کر دیا ہے اور فوجی اخراجات 68 ارب ڈالر تک پہنچا دیے ہیں۔
اکتوبر 2023 سے جب غزہ کی تباہ کن جنگ شروع ہوئی اور تیزی سے لبنان کے ساتھ شمالی سرحدوں تک پھیل گئی، اسرائیل کی معیشت ایک گہرے بحران کے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ دو سالہ جنگ، جو وسیع فوجی حملوں، مسلسل بمباری اور علاقائی کشیدگی کے ساتھ جاری رہی، نہ صرف ہزاروں جانیں لے چکی ہے بلکہ اس رژیم کی اقتصادی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
وہ جنگ جسے تل ابیب نے اپنی ڈیٹیرنس کی بحالی کے لیے شروع کیا تھا، آج اسی رژیم کو ایک ’’باغی ریاست‘‘ کی شکل میں دوبارہ متعارف کروا رہی ہے؛ ایسی ریاست جو بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتی ہے اور جو اب خود اسی ہتھیار سے یعنی معیشت کے ذریعے خطرے میں ہے جسے وہ ہمیشہ دوسروں کے خلاف استعمال کرتی تھی۔
بینک آف اسرائیل کی سرکاری رپورٹوں کے مطابق، نومبر 2025 تک جنگ کے براہِ راست اخراجات 68 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں، جو اس رژیم کے مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے تقریباً 12 فیصد کے برابر ہے۔ البتہ یہ رقم محض پہاڑ کی چوٹی ہے؛ غیر مستقیم اثرات جیسے سرمایہ کاری میں کمی، دماغی صلاحیتوں کا انخلا اور سپلائی چین کی خرابی نے اسرائیل کی معیشت کو طویل مدت کے جمود کی طرف دھکیل دیا ہے۔
اخراجات اور دفاعی بجٹ
سب سے نمایاں نقصانات میں سے ایک فوجی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ بینک آف اسرائیل کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، جنگ کے آغاز سے دسمبر 2025 تک جنگی اخراجات تقریباً 68 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اس رقم میں براہِ راست اخراجات شامل ہیں، جیسے گولہ بارود، آلات کی مرمت اور ریزرو فورسز کی تنخواہیں۔ بینک آف اسرائیل کا تخمینہ ہے کہ 2025 کے اختتام تک جنگ کی مجموعی لاگت تقریباً 68 ارب ڈالر تک پہنچے گی، تاہم طویل المیعاد اثرات کو دیکھتے ہوئے یہ رقم اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل کی وزارتِ جنگ نے اعلان کیا ہے کہ 2025 اور 2026 کے لیے دفاعی بجٹ میں 20 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کیا گیا ہے۔مثال کے طور پر، 3 لاکھ 60 ہزار سے زائد ریزرو فوجیوں کی طلبی نے معیشت کو مفلوج کر دیا ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد ٹیکنالوجی اور خدمات جیسے اہم شعبوں میں کام کر رہے تھے اور ان کی غیر موجودگی نے پیداوار کو روک دیا ہے۔ بینک آف اسرائیل کے چیف ماہرِ اقتصادیات امیر یارون نے 29 ستمبر 2025 کی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا:
“غزہ اور لبنان کی جنگوں نے بجٹ خسارے کو بے مثال سطح تک پہنچا دیا ہے اور اس سال کی اقتصادی ترقی کو 2.5 فیصد تک گرا دیا ہے۔”
رپورٹوں کے مطابق اس اضافی دفاعی بجٹ نے بجٹ خسارے کو GDP کے 7 فیصد سے بھی زیادہ کر دیا ہے اور ٹیکس دہندگان پر دباؤ مزید بڑھا دیا ہے، جس کی تلافی کے لیے کئی سال کی بچت درکار ہوگی۔گزشتہ جمعہ کابینۂ اسرائیل نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس رژیم کے دفاعی بجٹ میں آئندہ 10 سالوں کے لیے 350 ارب شیکل (107 ارب ڈالر) کا اضافہ کیا جائے گا۔ یہ اضافہ جنگ سے پہلے کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد زیادہ ہے اور اس کے اقتصادی اور عسکری اثرات پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔سرکاری تخمینوں کے مطابق اس فیصلے سے اسرائیل کے فوجی اخراجات جنگ سے پہلے کے مقابلے میں 70 فیصد سے زیادہ بڑھ جائیں گے؛ ایسا اضافہ جس سے دفاعی بجٹ اور مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے تناسب کے لحاظ سے اسرائیل دنیا میں یوکرین کے بعد دوسرے نمبر پر آ جاتا ہے۔
اسرائیلی معاشرے میں فوجی اخراجات میں اضافے کے براہِ راست نتائج
ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ فوجی اور سکیورٹی شعبوں کے لیے نئے بجٹ مختص کرنے سے اسرائیل کی اقتصادی ساخت اور سماجی حالات پر فوری اور سنگین اثرات پڑیں گے۔ یہ اثرات واضح طور پر چار بنیادی پہلوؤں میں نمایاں ہوتے ہیں:
● ٹیکسوں میں اضافہ اور شہری خدمات میں کمی
مالی اداروں کے اندازوں کے مطابق دفاعی بجٹ میں اضافہ سماجی اور عمرانی خدمات میں کمی کے مترادف ہے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے جیسے شعبے سب سے پہلے وسائل کی کمی کا سامنا کریں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگی اخراجات کی تلافی کے لیے حکومت کو ناگزیر طور پر ٹیکس بڑھانے پڑیں گے۔
● سماجی خلیج میں شدت
سرکاری رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی ایک چوتھائی خاندان اس وقت بھی غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔ دفاعی اخراجات کے مالی دباؤ سے سرکاری معاونت میں کمی کے امکانات بڑھ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں طبقاتی خلیج اور سماجی بے چینی مزید شدید ہوگی۔
● نئی معکوس ہجرت کی لہر
گزشتہ مہینوں میں اسرائیلی شہریوں میں “ملک چھوڑنے کے رجحان” سے متعلق متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف جنوری 2023 سے ستمبر 2024 کے درمیان تقریباً 90 ہزار افراد فلسطینِ اشغالی چھوڑ چکے ہیں۔ اسرائیلی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ مالی بوجھ میں اضافہ اور معاشی غیر یقینی صورتحال نئی معکوس ہجرت کی ایک تازہ لہر پیدا کرے گی۔
● سرکاری قرض کے دباؤ میں اضافہ
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کا سرکاری قرض مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد کی سطح پر برقرار رہے گا؛ جو جنگ سے پہلے کی پیش گوئیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اس بلند قرض سے قرض کی ادائیگی کے اخراجات میں اضافہ ہوگا اور سالانہ بجٹ پر اضافی دباؤ پڑے گا۔
سیاحت کی صنعت
سیاحت، جو جنگ سے پہلے اسرائیل کے GDP کا تقریباً 3 فیصد تھی، تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اسرائیلی وزارتِ سیاحت کی رپورٹس کے مطابق 2025 میں غیر ملکی سیاحت 60 فیصد سے زیادہ گر گئی، اور جنگ کے آغاز سے دسمبر 2025 تک تقریباً 30 لاکھ کم سیاح مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوئے ہیں۔تل ابیب اور مقبوضہ قدس جیسے شہر، جو غیر ملکی سیاحوں پر انحصار کرتے تھے، اب شدید کمی کے شکار ہیں۔ مثال کے طور پر نومبر 2025 تک سیاحت سے ہونے والا مالی نقصان 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔اسرائیلی ماہرینِ اقتصادیات اسے “ناقابلِ بازگشت تباہی” قرار دیتے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے ایک نمایاں تجزیہ کار نے لکھا:
“جنگ کی ہوائیں کچھ حد تک تھمنے کے بعد بھی سیاح فوراً واپس نہیں آئیں گے، اور سیاحت کی صنعت کو بحالی کے لیے مہینوں یا حتیٰ کہ برسوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔”
اسی طرح وزارتِ سیاحت کے حکام نے اعتراف کیا ہے کہ“اکتوبر 2023 سے ستمبر 2025 تک سیاحت میں 70 فیصد کمی نے مقامی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے اور ہزاروں ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔”
غزہ میں جنگ کے جاری رہنے اور آتشبس کے اعلان کے باوجود حملے جاری ہونے کے باعث، اس شعبے کی بحالی میں ممکن ہے دہائیاں لگ جائیں، کیونکہ دنیا میں اسرائیل کی شبیہ شدید متاثر ہو چکی ہے اور سیاح اب زیادہ محفوظ مقامات کا انتخاب کر رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی (ہائی ٹیک) کی صنعت
ٹیکنالوجی کا شعبہ، جو اسرائیلی معیشت کا انجن اور 50 فیصد سے زیادہ برآمدات کا ذمہ دار ہے، تباہ کن ضرب کا شکار ہوا ہے۔ 2025 میں غیر ملکی سرمایہ کاری تقریباً 15 فیصد کم ہوئی ہے، جبکہ اس شعبے کے کئی حصے ریزرو فوجیوں کی طلبی اور عالمی اعتماد میں کمی کے باعث شدید متاثر ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر، نوجوان اسٹارٹ اپ سیکٹرز کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے اور مجموعی معیشت عالمی تجارتی سست روی اور جنگ سے متاثر ہوئی ہے۔ دماغی صلاحیتوں کا انخلا بھی بڑھ گیا ہے؛ ڈاکٹر، انجینئر اور ٹیکنالوجی کے ماہرین یورپی ممالک کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔“اِرز شاجار”، جو کومرا کیپیٹل نامی سرمایہ کاری کمپنی کے بانیوں میں سے ایک ہیں، نے ستمبر 2025 میں نیشنل پبلک ریڈیو (NPR) کو ایک انٹرویو میں کہا تھا:
“اسرائیل کی معیشت دباؤ کی علامات ظاہر کر رہی ہے، اور ٹیکنالوجی کا شعبہ، جو مرکزی انجن ہے، عالمی کساد بازاری اور جنگ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔”
اسی طرح سرکاری رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ“مسلسل جنگوں نے ٹیکنالوجی کے حساس شعبوں میں سرمایہ کاری میں کمی پیدا کی ہے اور مستقبل کی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔”
یہ نقصان ساختی نوعیت کے ہیں؛ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی اور ماہرین کی واپسی کے لیے بنیادی سیاسی تبدیلیاں درکار ہیں، جو قریبی مستقبل میں ممکن ہوتی نظر نہیں آتیں۔
زرعی شعبہ اور شمالی علاقے
لبنان کے ساتھ جنگ، جس نے شمالی سرحدوں کو لپیٹ میں لیا، نے اسرائیل کی زرعی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ جنگ کے دوران 1 لاکھ سے زیادہ افراد کو شمالی اور جنوبی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور کھیتوں کو نقصان پہنچا؛ یہاں تک کہ 2025 میں زرعی پیداوار 20 فیصد سے زیادہ کم ہوگئی، جس کے نتیجے میں درآمدات میں اضافہ اور مہنگائی بڑھ گئی۔
سڑکیں، عمارتیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے دوبارہ تعمیر کرنے کے اخراجات اربوں ڈالر ہیں۔ مزید یہ کہ جنگی نقصان کے باعث زرعی نظام میں خلل پڑنے سے پیداواریت بھی کم ہو گئی ہے۔
اسرائیلی وزارتِ زراعت کے حکام نے نومبر 2025 میں کہا تھا:
“جنگ نے مقامی کسانوں کو بے مثال چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے اور مقامی شعبے کی مدد کے لیے درآمدات میں کمی کی ضرورت ہے۔”
بین الاقوامی رپورٹس بھی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ“اکتوبر 2023 کے حملوں اور لبنان کی جنگ نے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور پیداوار کو مفلوج کر دیا ہے۔”
یہ علاقے، جو زرعی سرگرمیوں پر انحصار کرتے تھے، اب بے روزگاری کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں، اور مٹی و بنیادی ڈھانچے کی بحالی میں کئی سال لگیں گے۔
مجموعی اقتصادی ترقی اور بے روزگاری
اسرائیل کی GDP کی ترقی 2022 میں 6.5 فیصد سے گھٹ کر 2023 میں 2 فیصد اور 2025 میں تقریباً 2.5 فیصد رہ گئی ہے۔ نومبر 2025 میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 3 فیصد ہے، لیکن بغیر تنخواہ رخصتوں اور نوجوانوں کی کم ہوتی شمولیت کو شامل کیا جائے تو حقیقی شرح اس سے زیادہ بنتی ہے۔ نجی کھپت، برآمدات اور سرمایہ کاری میں شدید کمی آئی ہے اور 2026 کے لیے ترقی کی پیش گوئی تقریباً 4.7 فیصد ہے، لیکن یہ مکمل طور پر جنگوں کے خاتمے پر منحصر ہے۔
اسرائیل کے مرکزی بینک کے سربراہ نے کہا ہے:“غزہ اور لبنان کی جنگوں نے معیشت کو جنگ اور تنہائی کے درمیان پھنسایا ہوا ہے اور اخراجات کو 2025 کے وسط تک 60 سے 120 ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے۔”
یہ اعدادوشمار ایک گہرے جمود کی نشاندہی کرتے ہیں، جو بلند مہنگائی (درآمدی اخراجات میں اضافے کے سبب) کے ساتھ مل کر سامنے آیا ہے، اور اس کی بحالی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو فی الحال کم ہو چکی ہے۔
ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ کا اثر
جون 2025 میں ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ، جو میزائل اور فضائی حملوں پر مشتمل تھی، نے اسرائیلی معیشت کو ایک اور شدید جھٹکا دیا۔ بینک آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق اس لڑائی کے براہِ راست اخراجات تقریباً 12 ارب ڈالر تھے، جبکہ تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ کل اخراجات 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ، مؤسسه سیاست اقتصادی آرون کی رپورٹ کے مطابق اگر یہ جنگ پورا ایک مہینہ جاری رہتی تو کل اخراجات 12 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوسکتے تھے۔ اس جنگ نے مجموعی قومی پیداوار کی ترقی میں تقریباً 1.6 فیصد کی کمی پیدا کی اور 2025 کے لیے حقیقی ترقی کی پیش گوئی 3.3 فیصد سے کم ہو کر 1.7 فیصد رہ گئی، جو تقریباً 5.9 ارب ڈالر کے نقصان کے برابر ہے۔
جنگ کے دوران اقتصادی سرگرمی تقریباً مکمل طور پر رک گئی، غیر ضروری کاروبار بند ہوگئے، اور بیمہ و نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ کونسل کی رپورٹ کے مطابق جنگ کے دوران تیل کی قیمت 17 فیصد بڑھ کر 80 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی، حالانکہ آتشبس کے بعد یہ دوبارہ پرانی سطحوں پر آگئی۔
اسرائیلی فوج کی ریزرو بریگیڈیئر جنرل اور چیف آف اسٹاف کی سابق مالی مشیر ریم امیناچ جو پہلے وزارتِ جنگ کے بجٹ ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اور فوج کے اقتصادی شعبے کی ڈائریکٹر رہ چکی ہیں نے 15 جون 2025 کو اخبار کالکالیست کو ایک انٹرویو میں (جنگ شروع ہونے کے صرف دو دن بعد) کہا تھا:
“اس جنگ کے براہِ راست یومیہ اخراجات تقریباً 2.75 ارب شیکل (725 ملین ڈالر) ہیں، اور یہ صرف براہِ راست اخراجات ہیں؛ غیر مستقیم اخراجات جیسے GDP پر اثرات، اب تک قابلِ اندازہ نہیں ہیں۔”
اختتامیہ
آخرکار، غزہ اور لبنان میں دو سالہ جنگوں نے، ایران کے ساتھ مختصر جنگ کے ساتھ مل کر، اسرائیل کی معیشت کو فروپاشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔68 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات سے لے کر سیاحت کی تباہی اور ٹیکنالوجی کی صنعت کو پہنچنے والے نقصان تک یہ تمام ضربیں ساختی اور طویل المدت ہیں، جن کی بحالی آسان نہیں ہو گی۔