مشہد میں دانشکدہ امام رضا علیہ السلام کے ڈائریکٹر حجت الاسلام احمد شفیعی نیا نے کہا: غدیر کی طرف بازگشت ایک ایسی ثقافت کا احیاء ہے جو اگر زندہ رہے تو آئندہ عاشورا جیسے سانحات عالمِ تشیع میں جنم نہیں لیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی اور بالخصوص شیعی روایت میں بعض ایام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، جس کا اظہار معصومین علیہم السلام کی زبان سے مخصوص دعاؤں اور اعمال کے ذریعے ہوا ہے۔ یہ تمام احادیث اور دعائیں اس اہمیت اور مرکزیت کی دلیل ہیں جو ان ایام کو حاصل ہے۔
شفیعی نیا نے کہا کہ جیسے قرآن نازل ہوتا ہے ہدایت کے لیے، اسی طرح دعا کو قرآنِ صاعد کہا گیا ہے جو انسان کو کمال تک پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ عاشورا، بعثت اور غدیر جیسے مواقع پر خاص دعائیں وارد ہوئی ہیں جو ان واقعات کی روح کو اجاگر کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان دعاؤں کا مطالعہ اور تجزیہ ہمیں نہ صرف ان ایام کی معنویت سے آگاہ کرتا ہے، بلکہ اس کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نزدیک ان تقریبات کی کیا اہمیت ہے۔ ان دعاؤں میں معانی کے ایسے رموز ہوتے ہیں جو عام حالات میں ہمیں محسوس نہیں ہوتے۔
دانشکدہ امام رضا ع کے سربراہ نے بیان کیا کہ جب یہ دعائیں جو مخصوص ایام میں وارد ہوئی ہیں، مومنین کو خاص حالات اور مقامات کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ مثلاً عید غدیر کے دن مخصوص نمازوں اور دعاؤں کی انجام دہی نہ صرف باعث ثواب ہے، بلکہ خود ایک دعوت بھی ہے کہ اس دن کے پیغام کو زندہ رکھا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غدیر کے اعمال دو پہلوؤں سے اہم ہیں کہ ایک، سماجی انصاف اور کمزور طبقات کی حمایت، جو کہ حضرت علیؑ کی سیرت کا نمایاں پہلو ہے۔ دوسرا، معاشی پہلو کہ مالدار افراد ایثار اور انفاق کے ذریعے سماج میں برکت پھیلائیں، تاکہ غدیر کے دن اطعامِ عام ممکن ہو۔ ایک محتاج معاشرہ دوسروں کو کھلانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
حجت الاسلام شفیعی نیا نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے غدیر سے سبق نہ سیکھا تو تاریخ ہمیں دھوکہ دیتی رہے گی۔ جیسا کہ عاشورا کے واقعے کو شیعہ نے ہمیشہ یاد رکھا، مگر غدیر کو فراموش کر دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جھوٹے امیرالمومنین متعارف کروائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امت مسلمہ متحد ہوتی تو آج غزہ امت سے جدا نہ ہوتا اور اسلامی ممالک مغرب کے آلۂ کار بادشاہوں کے زیرنگیں نہ ہوتے۔ غدیر کو بھی عاشورا کی طرح زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ غدیر کی طرف واپسی یعنی عزت و شرافت، اور تشیع کی اصلی شناخت یعنی ذوالفقار کی طرف واپسی ہے۔ اس ثقافت کی حیات ہی عاشورا جیسے واقعات کی روک تھام کر سکتی ہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جن حکمرانوں نے غدیر کو اپنے خلاف پایا، انہوں نے اسے دبانے کی کوشش کی۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ 10 کلومیٹر طویل غدیری دسترخوان اور عوامی جشن جیسی تقاریب خوش آئند ہیں، لیکن غدیر کی طرف علمی اور فکری رجعت کی بھی ضرورت، ہمیں ‘غدیر’ جیسی الہی نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔