عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز نے ایک بار پھر ایران کے پُرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف قرارداد منظور کی، جو کسی تکنیکی بنیاد پر نہیں بلکہ مغربی طاقتوں کی سیاسی چالوں کا شاخسانہ ہے۔
یہ قرارداد فرانس، برطانیہ، اور جرمنی کی تجویز پر، امریکہ کے تعاون سے پیش کی گئی۔
19 رکن ممالک کی تائید، 11 ممبران کی غیر جانبداری اور 3 کی مخالفت کے ساتھ منظور کی جانے والی اس قرارداد میں ایران پر ایٹمی معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا، جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی شفاف اور مسلسل تعاون پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
مزید برآں، اس قرارداد میں اسرائیل کے فراہم کردہ بے بنیاد شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا گیا کہ ایران نے 2019 کے بعد سے بعض غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری سرگرمیوں کی مکمل اطلاع نہیں دی، اور ایجنسی کو مکمل تعاون فراہم نہیں کیا۔
ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ ایجنسی ایران کے ایٹمی پروگرام کی پُرامن نوعیت کی ضمانت نہیں دی سکتی، اور یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔
ایران کا تعمیری تعاون، مغرب کی سیاسی سازشوں کی نذر
ایران نے ایجنسی کے ساتھ ہمیشہ تعمیری اور شفاف تعاون کیا، خاص طور پر 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے (برجام) کے بعد، جس کے بعد IAEA کی 15 رپورٹیں ایران کی مکمل پاسداری کی تصدیق کرتی ہیں۔ لیکن جب امریکہ نے 2018 میں برجام سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی، تو ایران نے صبر کی حکمت عملی اپنائی، اس کے باوجود، امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے ایران پر چار قراردادیں عائد کیں، حتیٰ کہ ایران نے نگرانی اور رسائی کے کئی تقاضے پورے کیے۔
روسی سفارت کار میخائیل اولیانوف نے ان قراردادوں کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایجنسی نے ایران میں ہونے والی جوہری نگرانی کی تفصیلات مکمل طور پر رپورٹ نہیں کیں، حالانکہ ایران میں 125 انسپکٹرز نے 493 معائنے اور 1260 فیلڈ ایکٹیویٹیز انجام دی ہیں۔
ایجنسی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی
یہ طرزِ عمل ایجنسی کی غیر جانبداری اور فنی ساکھ پر کاری ضرب ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایجنسی اب ایک بین الاقوامی فنی ادارہ نہیں رہی بلکہ سیاسی ایجنڈے کا آلہ بن چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں ادارے کی رپورٹوں پر عالمی اعتماد میں واضح کمی آئی ہے اور ترقی پذیر اور غیر وابستہ ممالک اس ادارے کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیل جیسے ممالک کی جھوٹی معلومات پر انحصار، ایجنسی کو خطرناک راستے پر ڈال رہا ہے۔
ایران کا ردعمل اور دفاعی حکمت عملی
ایران نے اس قرارداد کے خلاف سخت ردعمل دیا ہے۔ وزارت خارجہ اور ایٹمی توانائی ایجنسی نے مشترکہ بیان میں اسے سیاسی اور غیر فنی قدم قرار دیتے ہوئے جوابی اقدامات کا عندیہ دیا۔
ایران کے جوابی ایکشن میں ممکنہ طور پر درج ذیل اقدامات شامل ہیں: فوردو میں نئی اور محفوظ جگہ پر یورینیم افزودگی کے مرکز کا آغاز، پرانے سینٹری فیوجز کی جگہ جدید نسل (IR-6) کی مشینیں نصب کرنا اور سفارتی سطح پر یورپی ممالک کو خبردار کرنا کہ ان کا رویہ ایران کو سخت اقدامات پر مجبور کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی سوشل میڈیا پر یورپی ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ سات سال میں جوہری وعدے پورے نہیں کر سکے، یہ ایک اور اسٹریٹجک غلطی ہے جس کا ایران منہ توڑ جواب دے گا۔
ممکنہ خطرات اور مستقبل کی راہیں
ایران کا ردعمل اب بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے مگر سخت اور مؤثر ہوگا۔ کچھ امکانات یہ ہیں: نگرانی کی سطح میں کمی لانے یس الحاقی پروٹوکول یہاں تک کہ NPT سے علیحدگی پر غور کیا جا سکتا ہے۔
مبصین کا کہنا کہ اگر ایجنسی سیاسی مقاصد کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتی رہی تو نہ صرف ایٹمی معاہدوں کا مستقبل تاریک ہو گا، بلکہ عالمی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
نتیجہ
پیشہ ورانہ غیرجانبداری کی بحالی ہی نجات کا راستہ ہے، ایجنسی کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اپنی غیرجانبدار اور فنی شناخت کی طرف لوٹے، اور اسرائیل جیسے مشکوک ذرائع کی معلومات سے دور رہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دنیا اس پر مزید اعتماد نہیں کرے گی اور وہ ایک غیر مؤثر ادارے میں تبدیل ہو جائے گی۔
صرف غیر جانبداری، شفافیت اور فنی سنجیدگی ہی وہ بنیادیں ہیں جو ایران جیسے ممالک کے ساتھ دوبارہ اعتماد بحال کر سکتی ہیں، اور عالمی جوہری نظام کو انتشار سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔