امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ اپنی ٹیلیفونک گفتگو کو ’بہت اچھی فون کال‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ممالک کی متعلقہ ٹیمیں ’جلد ہی ملاقات کریں گی‘۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں ’رائٹرز اور اے ایف پی‘ کے مطابق چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنوا نے رپورٹ کیا کہ فون پر بات چیت ڈونلڈ ٹرمپ کی درخواست پر ہوئی، جبکہ دو طرفہ تعلقات تجارتی تنازعات کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ ڈیڑھ گھنٹے کی کال میں ’تجارتی معاہدے کی پیچیدگیوں‘ پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس کا نتیجہ دونوں ممالک کے لیے بہت مثبت نکلا۔
ٹرمپ نے لکھا کہ ’نایاب معدنی مصنوعات کی پیچیدگی کے حوالے سے اب کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے، ہماری متعلقہ ٹیمیں جلد ہی ملاقات کریں گی، ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی نمائندگی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ، کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹنک اور امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریر کریں گے۔
پوسٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شی جن پنگ نے ڈونلڈ ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا کو چین کے دورے کے لیے مدعو کیا۔
ٹرمپ نے لکھا کہ دو عظیم قوموں کے صدور کے طور پر یہ وہ چیز ہے جس کے ہم دونوں منتظر ہیں، ان کا کہنا تھا کہ تقریباً تمام گفتگو میں تجارت پر بات چیت ہوئی، جبکہ روس، یوکرین یا ایران کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔
پوسٹ کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا گیا کہ صدر میڈیا کو آگاہ کریں گے کہ دونوں ممالک کے وفود کہاں اور کب ملاقات کریں گے۔

دریں اثنا، شنوا نے رپورٹ کیا کہ شی جن پنگ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ دونوں ممالک کو دوطرفہ تعلقات کی ’راستہ درست کرنے‘ کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین امریکا تعلقات کے راستے کو درست کرنے کے لیے ہمیں اچھی طرح سے چلنے اور سمت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ہر قسم کی مداخلت اور یہاں تک کہ تباہی کو ختم کرنے کے لیے، جو کہ خاص طور پر اہم ہے۔
مزید برآں، چینی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو متنبہ کیا کہ امریکا کو تائیوان کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے، تاکہ چین اور امریکا تصادم کے خطرے میں گھسیٹنے سے بچ سکیں۔
واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان یہ انتہائی متوقع کال ایک ایسے وقت میں ہوئی، جب دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی جنگ عروج پر اور ٹیکسز کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
دونوں ممالک 12 مئی 2025 کو 90 روز کے لیے ایک ایسے معاہدے پر پہنچے تھے، جہاں دونوں معیشتوں نے ایک دوسرے کی درآمد اشیا پر عائد کیے گئے محصولات کو عارضی طور واپس لیا، اگرچہ ان اقدامات کے بعد اسٹاک میں تیزی دیکھنے میں آئی، لیکن دونوں ممالک کے درمیان یہ عارضی ڈیل سرمایہ کاروں کے وسیع ترخدشات کو دور نہیں کرسکی۔
جنوری 2025 میں جب سے صدر ٹرمپ دوسری مدت کے لیے اقتدار میں آئے ہیں، انہوں نے تجارتی شراکت دار ممالک کو پر ٹیرف عائد کیے جبکہ ان میں سے کچھ آخری لمحات میں واپس بھی لیے۔
واضح رہے کہ چین کی جانب سے رواں برس اپریل میں نایاب معدنیات اور میگنٹس کی برآمد کی معطلی کے بعد دنیا بھر میں گاڑیاں بنانے کی صنعتوں، کمپیوٹر چیپس اور ملٹری کنٹریکٹرز کو اپنے کنٹریکٹس مکمل کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
معدنیات اور میگنٹس کی برآمدات کی معطلی کا اقدام چین کی معدنیات کی صنعت میں بالادستی کو اجاگر کرتا ہے اور یہ اقدام صدر ٹرمپ پر مقامی سطح پر سیاسی دباؤ بھی بڑھا سکتا ہے اس کی بنیادی وجہ مقامی کمپنیوں کا ان نایاب معدنیات اور میگنیٹس کی کم یابی کے باعث جاری معاہدہ کو مکمل نہ کرنا ہے۔