اقوام متحدہ کی افغان کارکنان دھمکیوں کے بعد گھروں سے کام کرنے پر مجبور

افغانستان میں اقوام متحدہ کیلئے کام کرنے والی افغان خواتین کو نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیوں کے بعد گھروں سے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والی متعدد خواتین نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں راہ چلتے اور فون پر مختلف افراد کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں اور خبردار کیا گیا کہ وہ ’ گھروں میں رہیں۔’

اقوام متحدہ کی ایک ملازمہ ہدیٰ ( فرضی نام) نے بتایا کہ انہیں کئی ہفتوں سے ’ غیر ملکیوں کے ساتھ کام کرنے’ پر گالیاں اور دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے ہیں’، اس نوجوان خاتون نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ پیغامات مسلسل آ رہے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیں ہراساں کرتے رہتے ہیں… کہتے ہیں، ’دوبارہ نظر نہ آنا، ورنہ…..‘۔’ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے دفتر نے انہیں اگلے حکم تک گھر سے کام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان (یوناما) نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کابل میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین کارکنوں کو نامعلوم افراد کی جانب سے ان کے کام کے سلسلے میں دھمکیاں دی گئی ہیں۔

یوناما نے ایک بیان میں کہا کہ ’ کابل میں اقوام متحدہ کے عملے میں شامل متعدد افغان خواتین ان کے کام کے سلسلے میں نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔’

اقوام متحدہ نے ان دھمکیوں کو ’ انتہائی سنگین’ قرار دیتے ہوئے عملے کی حفاظت اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ’ عبوری’ اقدامات کیے ہیں۔

2021 میں برسراقتدار آنے والی طالبان حکومت نے افغان خواتین اہلکاروں کو دھمکیوں کے واقعات میں کسی بھی قسم کی شمولیت سے انکار کیا ہے، واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان حکومت پر خواتین کے خلاف ’ جنسی امتیاز’ مسلط کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانع نے کہا کہ ایسی دھمکیاں ایک ’ جرم’ ہیں اور پولیس اس سلسلے میں کارروائی کرے گی، یوناما نے بتایا کہ حکام نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

2021 میں اقتدار پر قبضے کے بعد سے طالبان حکام نے افغان خواتین کے کام کرنے پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کے پرائمری اسکول کے بعد تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی ہے۔

طالبان حکومت نے 2022 میں خواتین کو ملکی اور بین الاقوامی این جی اوز کے لیے کام کرنے سے روک دیا تھا، اس پابندی کو 2023 میں اقوام متحدہ کے دفاتر تک وسعت دے دی گئی تھی۔

اس پالیسی میں کچھ استثنی بھی ہیں، جن میں صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کے شعبوں میں کام کرنے والی خواتین شامل ہیں، اور ان شعبوں میں اس پالیسی کو سختی سے نافذ نہیں کیا گیا۔

اقوام متحدہ اس پالیسی کو پہلے بھی ’ انتہائی امتیازی’ قرار دے چکی ہے۔

30 سالہ کارکن سیلسیلا نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے دفتر سے واپس آتے ہوئے، انہیں نامعلوم افراد نے روکا اور ان سے کہا کہ انہیں ’ شرم’ آنی چاہیے اور انہیں ’ گھر میں رہنا ’ چاہیے، انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ ان افراد نے کہا کہ ہم نے آپ کو اس بار نرمی سے کہا ہے، لیکن اگلی بار آپ کو کچھ اور طریقے سے کہا جائے گا’۔’

سیلسیلا نے کہا کہ وہ بہت ڈر گئی تھیں اور یہ بھی بتایا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں بجلی اور انٹرنیٹ قابل بھروسہ نہیں، گھر سے مؤثر طریقے سے کام کرنا ان کے لیے کتنا مشکل ہے، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ خواتین کے لیے صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے۔’

ایک اور خاتون راحیلہ نے بتایا کہ وہ اور ان کی دو دیگر خواتین ساتھیوں کو اقوام متحدہ کی گاڑی میں گھر جاتے ہوئے مردوں نے روکا اور انہیں دوبارہ دفتر نہ جانے کا کہا۔

راحیلہ نے بتایا کہ’ ان افراد نے پوچھا، ’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہیں( کام کرنے کی) اجازت نہیں ہے؟‘’ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں نامعلوم نمبروں سے دھمکی آمیز پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں، راحیلہ کا کہنا تھا وہ بہت پریشان ہیں اور انہیں نوکری اور تنخواہ کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کی تقریباً 45 ملین آبادی کے تین چوتھائی افراد کو اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات درپیش ہیں، اور یہ ملک دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔

Scroll to Top