پیوٹن نے کہا ہے روس یوکرین کے حملے کا جواب دینے کا پابند ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹیلیفونک گفتگو میں واضح کیا ہے کہ ماسکو یوکرین کے ڈرون حملے کا جواب دینے کا پابند ہے۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق ایسے وقت میں جب امریکی صدر جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، روس کا ردعمل تنازع میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے۔

یہ چند ہفتوں میں دونوں رہنماؤں کے درمیان دوسری بار بات چیت تھی، ٹرمپ نے فون کال کے بعد ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کے ذریعے اس بات کا اعلان کیا، انہوں نے پیوٹن پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے یا اس حملے کے ردعمل کو محدود رکھنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

اس کے بجائے ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ 75 منٹ کی گفتگو سے فوری طور پر جنگ ختم ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ہم نے روس کے ہوائی جہازوں پر یوکرین کے حملے کے بارے میں بات کی، اور دیگر مختلف حملوں پر بھی جو دونوں طرف سے کیے جا رہے ہیں، یہ ایک اچھی گفتگو تھی، لیکن ایسی نہیں جس سے فوری امن حاصل ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ صدر پیوٹن نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ وہ ایئر فیلڈز پر حالیہ حملے کا جواب دینے پر مجبور ہوں گے۔

کریملن کے مشیر یوری اوشاکوف نے ٹرمپ-پیوٹن کال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کے ایئر فیلڈز پر حملے کا موضوع بھی زیر بحث آیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا پیوٹن نے ان حملوں کا جواب دینے کا عندیہ دیا یا نہیں۔

ٹرمپ کی جانب سے اس کال کی سادہ سی تفصیل سے امن کوششوں میں کسی بڑی پیش رفت کا کوئی ثبوت نہیں ملا، یوکرینی قانون ساز الیگزینڈر میرژکو نے ’سی این این‘ کے جِم شیوٹو سے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ٹرمپ درپردہ طور پر روسی جوابی کارروائی کی منظوری دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے کچھ ایسا نہیں کہا کہ ولادیمیر، رک جاؤ، اور یہ بہت تشویش ناک ہے، کیوں کہ یہ ایسا لگ سکتا ہے، جیسے وہ پیوٹن کے نئے جرم کو ایک طرح سے گرین سگنل دے رہے ہیں۔

ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ 2 ہفتوں کے اندر یہ طے کر لیں گے کہ آیا پیوٹن جنگ بندی پر سنجیدہ ہیں یا نہیں، مگر یہ واضح نہیں کیا کہ وہ یہ فیصلہ کیسے کریں گے، اس دوران، ٹرمپ پر روس پر مزید پابندیاں لگانے کا دباؤ بڑھ رہا ہے، جس کی وہ اب تک مزاحمت کرتے آئے ہیں۔

روسی اور یوکرینی حکام نے اس ہفتے استنبول میں جنگ ختم کرنے کے لیے براہ راست مذاکرات کیے، مگر دونوں فریق اپنے مؤقف پر قائم رہے، ٹرمپ نے ان مذاکرات کے لیے دونوں فریقین کو ایک ساتھ بٹھانے کا کریڈٹ لیا۔

اوشاکوف نے کہا کہ پیوٹن نے بدھ کے روز ہونے والی تازہ مذاکراتی پیشرفت پر ٹرمپ کو بریفنگ دی، اور بتایا کہ یوکرین نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کی، شہری اہداف اور پرامن آبادی پر حملے کر کے بات چیت کو سبوتاژ کیا گیا۔

اوشاکوف نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوکرین کے مسئلے پر اعلیٰ سطح اور دیگر سطحوں پر رابطے جاری رکھے جائیں گے۔

نہ ہی ٹرمپ اور نہ ہی وائٹ ہاؤس نے ’ویک اینڈ‘ کے ڈرون حملوں پر کوئی ردعمل دیا، سوائے اس کے کہ یوکرینی حکام نے حملے سے پہلے امریکا کو مطلع نہیں کیا تھا، اس سے قبل، ٹرمپ نے یوکرینی شہروں پر روسی فضائی حملوں پر پیوٹن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

بدھ کے روز جاری کی گئی نئی ویڈیو میں حیران کن تفصیل کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے کہ یوکرینیوں نے کتنی درستگی سے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا، ان ہوائی جہازوں کو نقصان پہنچایا یا تباہ کیا جنہیں ماسکو یوکرینی شہریوں پر روزانہ کی بنیاد پر فضائی حملوں کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔

یہ ویڈیو یوکرین کی سیکیورٹی ایجنسی ایس بی یو نے جاری کی، جس میں دکھایا گیا ہے کہ ڈرونز کئی ایئر فیلڈز پر مختلف طرز کے درجنوں طیاروں کے قریب پہنچ رہے ہیں، جب کہ ان کے آس پاس طیارے جل رہے ہیں یا دھماکوں سے تباہ ہو رہے ہیں۔

یوکرینی فوجی حکام نے کہا کہ 41 روسی طیاروں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں اسٹریٹیجک بمبار اور نگرانی کے طیارے شامل تھے، کچھ تباہ ہوئے اور کچھ کو نقصان پہنچا۔

ٹرمپ-پیوٹن کال اسی دن ہوئی، جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو واشنگٹن میں یوکرینی صدارتی دفتر کے سربراہ آندری یرماک سے ملاقات کر رہے تھے، تاکہ جاری جنگ کے حوالے سے امریکی مؤقف پر بات ہو۔

ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے کہا کہ روبیو کی جانب سے یرماک کو یہ بتانے کی توقع تھی کہ یوکرینی مؤقف (جو امریکا کے مطابق لچک دار ہے اور جنگ بندی کی خواہش ظاہر کرتا ہے) مفید ہے، لیکن وزیر خارجہ یہ بھی واضح کرنا چاہتے تھے کہ امریکا بائیڈن دور کی پالیسی کے تحت لامحدود فوجی امداد کی طرف واپس نہیں جائے گا۔

یرماک نے روبیو سے ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ انہوں نے ’یوکرین کے فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کی فوری ضرورت‘ پر بات کی، بعد میں انہوں نے ’سی این این‘ کے اس سوال کو نظر انداز کر دیا کہ آیا ٹرمپ کے بیانات امن کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، بلکہ ٹرمپ کی جنگ ختم کرنے کے وعدے کی تعریف کی۔

یوکرین کے روس کے اندر تک ڈرون حملوں نے واشنگٹن کی ان ملاقاتوں کے لیے ڈرامائی پس منظر فراہم کیا، امریکی حکام کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کو ان حملوں سے روکنے کے لیے کوئی وارننگ جاری نہیں کی، حالاں کہ ان کا ماننا ہے کہ اس سے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔

امریکا کے یوکرین اور روس کے لیے خصوصی ایلچی کیتھ کیلاؤگ نے فاکس کو منگل کے روز ایک انٹرویو میں کہا کہ قومی سلامتی کے شعبے میں لوگوں کو سمجھنا ہوگا، جب آپ مخالف کے قومی بقا کے نظام، یعنی نیوکلیئر ٹرائیڈ، کے کسی حصے پر حملہ کرتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے، کیوں کہ آپ کو معلوم نہیں کہ دوسرا فریق کیا کرے گا، آپ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔

بدھ کے روز ہونے والی کال کے بارے میں اپنے خلاصے میں، ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ایران پر بھی پیوٹن سے بات کی، کیوں کہ وہ تہران کے ساتھ جوہری معاہدہ مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے لکھا کہ ہم نے ایران پر بھی بات کی، اور اس حقیقت پر کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے بارے میں فیصلہ جلدی کرنا ہوگا، میں نے صدر پیوٹن سے کہا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں، اور اس پر میرا خیال ہے کہ ہمارا اتفاق تھا۔

انہوں نے کہا کہ پیوٹن شاید ایران کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں شامل ہوں گے۔

امریکی صدر نے مزید لکھا کہ صدر پیوٹن نے مشورہ دیا کہ وہ ایران کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں حصہ لیں گے، اور شاید اس معاملے کو جلد حل کرنے میں مدد کر سکیں گے، میری رائے میں ایران اس اہم معاملے پر فیصلہ دینے میں سستی کر رہا ہے، اور ہمیں بہت جلد ایک حتمی جواب درکار ہوگا۔

اوشاکوف نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے ایرانی جوہری پروگرام پر مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا، اور ٹرمپ نے کہا کہ روس کی مدد ’درکار ہو سکتی ہے‘۔

Scroll to Top