گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان کے ماہرینِ اطفال، ماں کے دودھ کو غذائیت کے قدرتی ذریعے کے طور پر فروغ دے رہے ہیں تاکہ لاتعداد نوزائیدہ بچوں کی جان بچائی جاسکے۔ تو جب حال ہی میں یہ خبر سامنے آئی کی حکومت نوزائیدہ بچوں کے لیے فارمولا دودھ پر ٹیکسز کم کرنے پر غور کررہی ہے تو اس سے بچوں کی دیکھ بھال کے کارکنان میں سنگین خدشات نے سر اٹھایا۔ انہوں نے اسے طویل اور دشوار جدوجہد کے سفر میں پیچھے کی جانب ایک قدم کے طور پر دیکھا۔
ٹیکسز میں کمی کا تذکرہ ایک حکومتی اہلکار نے کھانے اور مشروب کی بین الاقوامی کمپنی ایم این سی کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا جس نے ماں کے دودھ کے بجائے فارمولا دودھ کی جانب حکومتی جھکاؤ کا عندیہ دیا۔ لیکن مالی اور اخلاقی طور پر حکومت کی اس منطق کو سمجھنا مشکل ہے کہ وہ فارمولا دودھ کو ’سستا اور قابلِ رسائی‘ بنائیں گے حالانکہ ماں کا دودھ صحت مند اور مفت متبادل ہے جو آسانی سے دستیاب بھی ہے۔
سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونٹولوجی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا ہے کہ جس طرح تمباکو پر ٹیکسز عائد ہیں اسی طرح فارمولا دودھ پر کم نہیں بلکہ صحت عامہ کے تحفظ کے لیے زیادہ ٹیکسز لگائے جانے چاہئیں۔ فارمولا دودھ کا زائد استعمال اور بچوں کو مناسب طریقے سے دودھ نہ پلانا پہلے ہی مسائل کا باعث بن رہا ہے جوکہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں بچوں کے لیے مختص ایمرجنسی رومز میں واضح نظر آتا ہے۔
چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عرفان حبیب کہتے ہیں، ’ہمارے یہاں ایمرجنسی میں لائے جانے والے ہر تیسرے بچے کو اسہال (ڈائریا) ہوتا ہے‘۔ ان کی تنظیم پاکستان بھر کے سرکاری ہسپتالوں کے 14 ایمرجنسی رومز میں ہر سال تقریباً 20 لاکھ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے جن میں نوزائیدہ سے 14 سال کی عمر کے بچے شامل ہیں۔ ان کا ٹیلی میڈیسن سسٹم جو 300 سے زائد سرکاری اسپتالوں سے منسلک ہے، ظاہر کرتا ہے کہ پیٹ کا انفیکشن (گیسٹرو اینٹرائٹس) سب سے عام بیماری ہے۔
انہیں شبہ ہے کہ اس کی وجہ ایک ہی ہے یعنی فارمولا دودھ! وہ کہتے ہیں، ’ہم صرف پیٹ کے انفیکشن کے بحران سے ہی نہیں نمٹ رہے ہیں جوکہ چھوٹے بچوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ ہے بلکہ ہمیں بوتل سے دودھ پلانے سے پیدا ہونے والے سنگین مسئلے کا بھی سامنا ہے‘۔
یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈائریا سے 5 سال سے کم عمر تقریباً 53 ہزار 300 بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔ نوزائدہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے با آسانی اس المیے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
لیکن پیٹ کا انفیکشن واحد بیماری نہیں جس میں طبی مراکز میں لائے جانے والے بچے مبتلا ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ غیر صحت مند ماحول میں رہنے والے جن بچوں کو فارمولا دودھ پلایا جاتا ہے، ان میں نمونیا (جوکہ پاکستان میں بچوں کی موت کی ایک اور بڑی وجہ ہے) سے مرنے کے امکانات ان بچوں کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہوتے ہیں جو ماں کا دودھ پیتے ہیں۔
ڈائریا کے علاوہ بوتل سے دودھ پلانے سے غریب گھرانوں کے بچوں میں غذائیت کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ڈی ایس اکرم 40 سال سے سرکاری اسپتالوں میں غذائی قلت کا شکار بچوں کا علاج کررہی ہیں۔ ان کے مطابق ان میں اکثریت ان بچوں کی ہے جو بوتل سے دودھ پیتے ہیں۔ غذائیت کی کمی بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ، قوت مدافعت کمزور یہاں تک کہ موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
سیو دی چلڈرن نے پاکستان کو دوسرا بدترین ملک قرار دیا ہے جہاں 20 فیصد سے زائد بچے پیدا ہی غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے جنگ، لوگوں کا نقل مکانی پر مجبور ہونا، شدید درجہ حرارت اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو بچوں کی غذائی قلت کی بڑی وجوہات کے طور پر بیان کیا ہے اور پاکستان کو ان تمام مسائل کا سامنا ہے۔
اس تناظر میں ماں کا دودھ زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے کیونکہ یہ محفوظ اور غذائیت کا مفت ذریعہ ہے۔ لیکن مسئلہ اس وقت بدتر ہوتا جاتا ہے جب فارمولا کمپنیز اپنی مصنوعات کی جارحانہ طور پر تشہیر کرتی ہیں اور ان ماؤں کے لیے کوئی مدد میسر نہیں ہوتی جو دودھ پلانا چاہتی ہیں۔
نتیجتاً، مالی بحران کا شکار خاندانوں کو فارمولا استعمال کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جو مہنگا ہے اور صحت مند بھی نہیں ہے جبکہ ان میں قدرتی غذائی متبادل بھی کم ہوتے ہیں کیونکہ وہ انہیں تیار نہیں کرسکتے۔
پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے سندھ چیپٹر کے صدر ڈاکٹر وسیم جمالوی بتاتے ہیں کہ ایک بار جب کوئی نوزائیدہ فارمولا شروع کرتا ہے تو ماں کے دودھ کی فراہمی اکثر کم یا مکمل طور پر بند ہوجاتی ہے۔ کراچی کے سول اسپتال میں شعبہ اطفال کے سربراہ کے طور پر وہ بتاتے ہیں کہ والدین کو اکثر دیر سے احساس ہوتا ہے کہ فارمولا دودھ کتنا مہنگا ہے جس کی وجہ سے وہ بچے کو فارمولا دودھ کی فراہمی کم کردیتے ہیں جس سے بچے کی غذائیت پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔
پانی محفوظ نہ ہونے یا کھانے پینے کے برتن صاف نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ ڈی ایس اکرم کہتی ہیں کہ اس سے بچوں کو بیماریوں اور انفیکشنز میں مبتلا ہونے کے سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
پاکستان میں صرف 48 فیصد بچوں کو ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے (حالانکہ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بچوں کو پہلے 6 ماہ تک صرف ماں کا دودھ پینا چاہیے)، بہت سی مائیں اور خاندانوں میں یہ غلط سوچ پائی جاتی ہے کہ جو خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں، وہ بچوں کے لیے کافی دودھ نہیں بنا سکتیں۔ فارمولا کمپنیز لوگوں کے اس خوف کو غیر منصفانہ طریقوں سے استعمال کرتی ہیں اور والدین کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہیں کہ فارمولا صرف ایک انتخاب نہیں ہے بلکہ یہ ناگزیر ضرورت ہے۔
پروٹیکشن آف بریسٹ فیڈنگ اینڈ چائلڈ نیوٹریشن آرڈیننس 2002ء نے پاکستان میں ماؤں کا دودھ پلانے کے تحفظ کے لیے ایک اہم بنیاد رکھی۔ اس کی وجہ سے صوبوں نے 2014ء-2013ء تک اپنے قوانین بنائے جو فارمولا دودھ کی مارکیٹنگ کے بارے میں تازہ ترین بین الاقوامی قوانین پر عمل کرتے تھے۔
یہ بلاشبہ ایک اہم قدم تھا لیکن اس میں ابھی اس سلسلے میں بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ قوانین یقینی طور پر اس وقت تک کافی نہیں ہوتے کہ جب تک متعلقہ لوگ ان قوانین کے حوالے سے شعور نہ رکھتے ہوں پھر چاہے وہ کمیونٹی ہو یا وہ لوگ ہوں جو ان پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
مارکیٹنگ پابندی کے باوجود فارمولا دودھ کے مینوفیکچررز اب بھی قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور صحت کے عملے کو مراعات کی پیش کش کرتے ہیں۔ ماہرینِ اطفال کا کہنا ہے کہ حقیقی مسئلہ نفاذ کا کمزور نظام ہے۔ ایک سینئر ہیلتھ پریکٹیشنر نے انکشاف کیا کہ صرف 4 ماہ قبل ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی بہت سے ڈاکٹرز کو جاپان کے دورے پر لے گئی تھی۔
اس غلط رجحان کو درست کرنے کے لیے بچوں کے دودھ سے متعلقہ بورڈز کو زیادہ وسائل اور مضبوط سیاسی حمایت کی ضرورت ہے تاکہ وہ درست طریقے سے نگرانی کر سکیں اور قوانین نافذ کر سکیں۔
2023ء میں سندھ نے اپنے صوبائی قانون میں ترامیم متعارف کروائیں جن پر دوسرے صوبے بھی غور کر سکتے ہیں۔ نئے قانون کے مطابق شیرخوار بچوں کے فارمولا دودھ کو صرف ڈاکٹر کے نسخے سے منظور شدہ اسٹورز اور فارمیسیز پر ہی فروخت کیا جا سکتا ہے۔ اس دودھ کو ’مصنوعی فارمولا‘ درج کیا جائے گا اور لیبل پر غذائی قلت کے بارے میں خبردار کیا جائے گا، وہ بھی اس پیغام کے ساتھ کہ ماں کا دودھ ڈائریا و دیگر بیماریوں سے بچنے میں مدد کرتا ہے۔ اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی سنگین سزا دوا کی پریکٹس کا لائسنس محروم ہونا بھی ہوسکتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماں کے دودھ کے فوائد کا کوئی متبادل نہیں لیکن یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ فارمولا خود آپ کا دشمن نہیں ہے بلکہ ان کا غلط استعمال آپ کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ ڈاکٹرز کو فارمولا دودھ صرف مخصوص کیسز میں تجویز کرنا چاہیے جیسے اگر بچے کی ماں کا انتقال ہوگیا ہو، اگر چھاتی کے ٹشوز ہٹانے کے لیے دوہری ماسٹیکٹومی ہوئی ہو یا بچے کو دودھ پلانے کے لیے کوئی رشتہ دار میسر نہ ہو۔
وہ اس صورت میں بھی فارمولا تجویز کرسکتے ہیں کہ اگر ماں ایسی ادویات لے رہی ہو (جیسے کیموتھراپی کے دوران استعمال ہونے والی) جن سے یہ خطرہ ہو کہ دودھ پلانے سے بچے کو نقصان پہنچے گا۔ تاہم یہ ضروری نہیں کینسر کی ہر مریضہ اپنے بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی۔ اس کے باوجود پاکستان میں فارمولا دودھ معیار اور نرخوں پر بغیر کسی کنٹرول کے فروخت کیا جارہا ہے۔ اگر اسے صرف تجویز کردہ نسخوں پر فروخت کیا جاتا ہے اور اسے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے تو اس میں بہتری آسکتی ہے۔
آخر میں جیسا کہ ماہرینِ اطفال زور دیتے ہیں، ماں کے دودھ کا حقیقت میں کوئی متبادل نہیں ہے۔ یہ غذائیت کا محفوظ ترین قدرتی ذریعہ ہے۔ تو آئیے یہ یقینی بناتے ہیں کہ ماؤں کو وہ مدد مل سکے جن کی انہیں ضرورت ہے اور انہیں عوامی مقامات اور کام کے مقامات پر وہ محفوظ اور آرام دہ جگہیں فراہم کی جائیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔
یہ وقت ہے کہ بچوں کو دودھ پلانے میں ماؤں کی مدد کی جائے اور اسے معمول بنایا جائے۔