امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران، افغانستان اور یمن سمیت 12 ممالک کے عوام پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کردی، ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام کولوراڈو میں یہودی احتجاج پر کیے گئے حملے کے بعد اُٹھایا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو سفری پابندیوں کے ایک نئے حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کا اطلاق ایران، افغانستان اور یمن سمیت12 ممالک پر ہوگا، یہ اقدام اُن متنازع پالیسیوں میں سے ایک کی واپسی ہے جو ان کے پہلے دورِ صدارت میں بھی متعارف کی گئی تھیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام کولوراڈو میں یہودی احتجاج پر کیے گئے عارضی فلیم تھروور حملے کے بعد اُٹھایا گیا ہے، جس کا الزام امریکی حکام نے ایک ایسے شخص پر عائد کیا ہے جو ان کے مطابق ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تھا۔
نئی پابندی کے تحت افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر امریکا آنے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے، اس کے علاوہ سات ممالک کے شہریوں پر جزوی پابندی بھی عائد کی گئی ہے جن میں برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرالیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں تاہم ان ممالک کے بعض شہریوں کو عارضی ورک ویزوں کی اجازت دی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، یہ پابندیاں پیر سے نافذ العمل ہوں گی، صدر ٹرمپ نے اوول آفس سے ایکس پر جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’کولوراڈو، بولڈر میں حالیہ دہشت گرد حملے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ غیر ملکی شہری، جن کی درست طریقے سے جانچ نہ کی جائے، امریکا کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اُنہیں یہاں نہیں چاہتے۔
فیفا ورلڈکپ اور اولمپکس کو استثنیٰ حاصل
ٹرمپ کے نئے حکم نامے کے مطابق یہ پابندی 2026 کے فیفا ورلڈ کپ (جسے امریکا، کینیڈا اور میکسیکو مشترکہ طور پر منعقد کر رہے ہیں) یا 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں شرکت کرنے والے ایتھلیٹس پر لاگو نہیں ہوگی۔
بدھ کو صدر ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کو ویزے دینے پر بھی پابندی عائد کر دی، یہ اقدام اُن کی اس مہم کا حصہ ہے جس میں وہ امریکا کی لبرل تعلیمی اداروں پر تنقید کرتے آئے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے نئے اقدامات کا موازنہ اپنے پہلے دورِ حکومت میں لگائی گئی متنازع مسلم ممالک کی سفری پابندی سے کیا، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر سفر میں رکاوٹیں پیدا ہوئی تھیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ 2017 میں عائد کردہ پابندی نے امریکا کو ان دہشت گرد حملوں سے محفوظ رکھا جو یورپ میں پیش آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کا یورپ جیسا حال نہیں ہونے دیں گے، ہم کسی ایسے ملک سے کھلی ہجرت کی اجازت نہیں دے سکتے جہاں سے آنے والے افراد کی محفوظ اور قابلِ بھروسا جانچ ممکن نہ ہو۔
ادھر، وینزویلا نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خود امریکا ایک خطرناک جگہ بن چکا ہے، وینزویلا کے وزیر داخلہ دیوسدادو کابیو نے اعلان کے بعد کہا کہ امریکا میں ہونا اب ہر کسی کے لیے خطرہ ہے، صرف وینزویلا کے شہریوں کے لیے نہیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کی یہ نئی سفری پابندی قانونی مشکلات کا سامنا بھی کر سکتی ہے، جیسا کہ اُن کی کئی دیگر متنازع پالیسیوں کے ساتھ ہوا ہے، جو انہوں نے اقتدار میں واپسی کے بعد تیزی سے نافذ کی ہیں۔
’مقصد امریکا کو غیرملکی دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہے‘
وائٹ ہاؤس نے نئی سفری پابندی کسی پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک نافذ کر دی، یہ اعلان صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنی رہائش گاہ کی بالکونی سے تقریباً 3 ہزار سیاسی مقررین سے خطاب کے چند منٹ بعد کیا گیا۔
اس بار کسی صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا، جسے ایک غیر معمولی اقدام قرار دیا جارہا ہے، کیونکہ اس سے قبل ٹرمپ اپنے بڑے اور متنازع فیصلے اکثر اوول آفس میں دستخط کی تقاریب میں میڈیا کے سامنے کیا کرتے تھے۔
اگرچہ اس اعلان کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی، تاہم کولوراڈو میں حملے کے بعد ایک نئی سفری پابندی کی افواہیں گردش کر رہی تھیں، ٹرمپ انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ ان تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی جو امریکا میں ویزے پر مقیم ہیں۔
ملزم محمد صابری سلیمان، جو عدالتی دستاویزات کے مطابق مصری شہری ہے، پر الزام ہے کہ اس نے اتوار کو اسرائیلی یرغمالیوں کی حمایت میں جمع ہونے والے ہجوم پر آگ کے بم پھینکے اور جلتا ہوا پیٹرول چھڑکا۔
امریکی محکمہ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ سلیمان سیاحتی ویزے پر آیا تھا اور غیر قانونی طور پر قیام کر رہا تھا، اور اس نے ستمبر 2022 میں پناہ کی درخواست دی تھی۔
وائٹ ہاؤس کی نائب پریس سیکرٹری ابیگیل جیکسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ صدر ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں کہ وہ امریکیوں کو ان خطرناک غیر ملکی عناصر سے بچائیں گے جو ہمارے ملک آ کر نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے جاری کردہ اعلامیے میں ہر ملک کے لیے سفری پابندیوں کی مخصوص وجوہات بیان کی گئی ہیں، اس اعلامیے کا مقصد امریکا کو غیر ملکی دہشت گردوں اور دیگر قومی سلامتی کے خطرات سے محفوظ رکھنا بتایا گیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ محمد صابری سلیمان کا ملک مصر ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے جن پر نئی سفری پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان جنگ زدہ لیبیا، سوڈان، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں مؤثر مرکزی حکومتیں یا پاسپورٹ اور شناختی نظام موجود نہیں، اس لیے ان کے شہریوں کی ویزا اسکریننگ قابلِ اعتماد نہیں سمجھی جاتی۔
ایران کو فہرست میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کیونکہ وہ ریاستی سطح پر دہشت گردی کی حمایت کرنے والا ملک ہے، حالانکہ امریکا اس کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔
نیشنل ایرانی امریکن کونسل کے صدر جمال عبدی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس پابندی کے اثرات ایک بار پھر ان امریکیوں پر پڑیں گے جو اپنے پیاروں کو شادیوں، جنازوں یا بچوں کی پیدائش جیسے لمحات میں دیکھنے سے محروم ہو جائیں گے۔
باقی کئی ممالک کے بارے میں حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک کے شہریوں کے ویزا ختم ہونے کے بعد امریکا میں رُک جانے کی شرح اوسط سے زیادہ ہے، جو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ اور کولمبیا پر حملے تیز کر دیے
ادھر، ٹرمپ نے بدھ کے روز امریکا کی اعلیٰ جامعات کے خلاف اپنی مہم تیز کر دی، ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہونے والے تمام غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے گئے اور کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیمی اسناد کی منظوری ختم کرنے کی دھمکی دی گئی۔
ٹرمپ ان جامعات کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ بین الاقوامی طلبہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، یہ ادارے اپنے کیمپسز پر یہود مخالف رجحانات کو نظر انداز کرتے ہیں اور لبرل نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔
بدھ کی رات وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ ہارورڈ میں کورس شروع کرنے کے لیے بین الاقوامی طلبہ کے داخلے کو 6 ماہ کے لیے معطل اور محدود کر دیا گیا ہے اور پہلے سے داخلہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزے بھی منسوخ کیے جاسکتے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہارورڈ کے طرز عمل نے اسے غیر ملکی طلبہ اور محققین کے لیے ایک ناموزوں مقام بنا دیا ہے۔
آسٹریا سے تعلق رکھنے والے ہارورڈ کے ایک طالبعلم کارل مولڈن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں کانپ رہا ہوں، یہ ناقابلِ یقین ہے، وہ اپنی ایگزیکٹو پاور کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں تاکہ ہارورڈ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکیں‘۔
ہارورڈ کے ایک اور بین الاقوامی طالبعلم نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ’میرے خدا! یہ انتہائی شرمناک ہے’۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہارورڈ کے غیر ملکی طلبہ کے اندراج کا حق ختم کرنے کی کوششیں ایک جج کی جانب سے روک دی گئی تھیں۔
حکومت پہلے ہی ہارورڈ کو ملنے والے تقریباً 3.2 ارب ڈالر کے وفاقی گرانٹس اور معاہدے ختم کر چکی ہے اور مستقبل میں کسی بھی وفاقی فنڈنگ سے اسے محروم رکھنے کا عزم ظاہر کر چکی ہے۔
ٹرمپ نے خاص طور پر ہارورڈ کے بین الاقوامی طلبہ کو نشانہ بنایا ہے، جو تعلیمی سال 25-2024 میں مجموعی داخلوں کا 27 فیصد تھے اور یونیورسٹی کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
ہارورڈ کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ انتظامیہ کی جانب سے ہارورڈ کی آزادی اظہار کے حق کے خلاف ایک اور غیر قانونی انتقامی اقدام ہے, ہارورڈ اپنے بین الاقوامی طلبo کا تحفظ جاری رکھے گی۔
ادھر بدھ ہی کو، ٹرمپ کی وزیر تعلیم نے کولمبیا یونیورسٹی سے اس کی تعلیمی اسناد کی منظوری واپس لینے کی دھمکی دے دی۔
ریپبلکن پارٹی نے نیویارک کی اس آئیوی لیگ یونیورسٹی پر الزام لگایا ہے کہ اس نے یہودی طلبہ کو ہراساں کیے جانے کو نظرانداز کیا، جس سے اس کی تمام وفاقی فنڈنگ خطرے میں پڑ گئی ہے۔
ہارورڈ کے برعکس، کولمبیا سمیت کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے ٹرمپ انتظامیہ کے سخت مطالبات کے آگے جھک چکے ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تعلیمی اشرافیہ بہت زیادہ لبرل ہو چکی ہے۔
لیکن بدھ کی کارروائی سے یہ اشارہ ملا کہ ٹرمپ اس پر بھی مطمئن نہیں، وزیر تعلیم لنڈا میک میہن نے ایکس پر کہا کہ کولمبیا یونیورسٹی نے یہودی طلبہ کو ہراساں کیے جانے پر آنکھیں بند رکھیں۔
انہوں نے یونیورسٹی پر نسلی، رنگ یا قومی شناخت کی بنیاد پر امتیاز برتنے کی ممانعت کرنے والے وفاقی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
امریکی محکمہ تعلیم کے بیان کے مطابق، اس کی شہری حقوق کی شاخ نے کولمبیا کی منظوری دینے والے ادارے سے اس مبینہ خلاف ورزی پر رابطہ کیا ہے۔
اگر کولمبیا کی منظوری واپس لی گئی تو یونیورسٹی تمام وفاقی فنڈنگ سے محروم ہو جائے گی ، جو اس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس کے طلبا کو بھی وفاقی گرانٹس یا قرضے نہیں مل سکیں گے۔
نقادوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یہود مخالف رویے کے الزامات کو استعمال کر کے تعلیمی اشرافیہ کو نشانہ بنا رہی ہے اور جامعات کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہی ہے۔
انتظامیہ پہلے ہی کولمبیا کو ملنے والے 400 ملین ڈالر کی فنڈنگ کا جائزہ لے چکی ہے، جس کے بعد مارچ میں یونیورسٹی نے حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے انسدادِ یہود دشمنی، احتجاجات کی نگرانی، اور مخصوص تعلیمی شعبوں پر نظر رکھنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا۔
بدھ کے اعلان کے بعد کولمبیا کے ترجمان نے کہاکہ ’ہم حکومت کی جانب سے اپنی منظوری دینے والے ادارے کے ساتھ اٹھائے گئے خدشات سے آگاہ ہیں، ہم نے ان خدشات پر براہِ راست ’مڈل اسٹیٹس‘ کے ساتھ بات چیت کی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہاکہ ’کولمبیا اپنے کیمپس پر یہود دشمنی کے خلاف جنگ کے لیے پُرعزم ہے، ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر اس کا حل نکالنے کے لیے کام کر رہے ہیں‘۔