ٹرمپ اور چینی صدرکے درمیان جلد ممکنہ بات چیت سے تجارتی تعطل ختم ہوسکتا ہے، امریکی وزیرخزانہ

امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کے صدر شی جن پنگ سے ’ بہت جلد’ بات کر سکتے ہیں اور ایسی ٹیلی فون کال دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی مذاکرات میں تعطل کو توڑنے میں مدد دے سکتی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو ٹرمپ نے بیجنگ پر جنیوا میں گزشتہ ماہ طے پانے والے ایک معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا، جس کے تحت دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر عائد کردہ بہت زیادہ محصولات کو عارضی طور پر کم کرنا تھا، یہ عارضی وقفہ 90 دنوں تک جاری رہنا تھا۔

وال سٹریٹ جرنل نے جمعہ کو رپورٹ کیا کہ چین کی جانب سے گاڑیوں اور چپس بنانے کے لیے درکار نایاب زمینی دھاتوں اور دیگر عناصر کے لیے برآمدی لائسنس کی منظوری میں سست روی نے امریکا کی مایوسی کو بڑھایا ہے، تاہم امریکی وزیرخزانہ نے سی بی ایس ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ کو بتایا کہ خلیج کو پُر کیا جا سکتا ہے۔

اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جب صدر ٹرمپ اور پارٹی چیئرمین شی جن پنگ کے درمیان بات چیت ہوگی تو یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین ’ کچھ ایسی مصنوعات کو روک رہا تھا جنہیں انہوں نے ہمارے معاہدے کے دوران جاری کرنے پر اتفاق کیا تھا۔’

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا نایاب زمینی دھاتیں ان مصنوعات میں سے ایک تھیں، تو بیسنٹ نے کہا، ’ ہاں۔’

انہوں نے کہا، ’ ہو سکتا ہے یہ چینی نظام میں کوئی خرابی ہو، ہو سکتا ہے یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہو، صدر ( ٹرمپ) کی چینی ہم منصب سے بات ہونے کے بعد ہم دیکھیں گے۔’

ٹرمپ اور چینی صدر کے درمیان بات چیت کب ہو سکتی ہے، اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اسکاٹ بریسنٹ نے کہا کہ ’ مجھے یقین ہے کہ ہم بہت جلد کچھ دیکھیں گے۔’

واضح رہے کہ ٹرمپ نے دوبارہ صدر بننے کے بعد زیادہ تر امریکی تجارتی شراکت داروں پر بڑے پیمانے پر محصولات عائد کیے ہیں، خاص طور پر چینی درآمدات پر بہت زیادہ ٹیکس عائد کیا ہے۔

جواب میں چین نے بھی یہی اقدام کیا، اور اس ماہ سے قبل دونوں جانب سے لگائے گئے نئے جوابی محصولات تین ہندسوں تک پہنچ چکے تھے، جس کے بعد واشنگٹن نے چینی درآمدات پر اضافی محصولات کو عارضی طور پر 145 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی جواب میں چین نے بھی اپنی اضافی ڈیوٹی کو 125 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا تھا۔

Scroll to Top