امریکا میں موجود اعلیٰ سطح کے پارلیمانی وفد کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھارت کو جامع مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے فعال کردار ادا کرنے کا مطالبہ کردیا۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی پر بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو بنیادی موضوع ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے ایک ارب 70 کروڑ عوام کو نامعلوم اور غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں یرغمال بانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، بھارت دہشت گردی کے واقعات کے جواب میں جنگ کو جواز بناکر خطرناک مثال قائم کر رہا ہے۔
خرم دستگیر کا جوہری جنگ کا عندیہ
دریں اثنا، پارلیمانی کمیٹی کے رکن اور سابق وزیر دفاع خرم دستگیر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری جنگ کا عندیہ دے دیا۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ بھارت نہ رکا تو جوہری جنگ ہو سکتی ہے، میں وزیردفاع رہا ہوں اس لیے بار بار اس بات کو سامنے رکھ رہا ہوں کہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی مرتکب ہوا ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ دنیا نے بھارت کا ہاتھ نہ روکا تو جوہری جنگ ہو سکتی ہے۔
دورے کے دوران پاکستانی وفد سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیوں سے متعلق سوال پر خرم دستگیر نے کہا کہ دورے کے دوران کسی ملک نے پاکستان کے خلاف بات نہیں کی، ہاں وہ صرف یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ کیا پاکستان میں جو دہشت گرد تنظیمیں ہوا کرتی تھیں ان کا صفایا کردیا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم بڑی وضاحت اور بڑے اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اب اسے آگے نکل چکے ہیں۔
خرم دستگیر نے بتایا کہ ہمیں اقوام متحدہ میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بھارت ملٹری لیٹرل ڈپلومیسی سے انکار کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے سفارتی کمیٹی کے بعد پارلیمانی وفود تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، پارلیمانی وفود 2 ماہ میں تشکیل دے کر بھیجے جائیں گے جبکہ اپوزیشن بھی ان وفود کا حصہ ہوگی۔
بھارت خطے میں ’نیو ایبنارمل‘ ترتیب دے رہا ہے، شیری رحمٰن
دریں اثنا، واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں بھارت ایک نیا اسٹریٹجک ’نیو ایبنارمل‘ ترتیب دے رہا ہے، جو معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت 19ویں صدی کی علاقائی طاقت بننےکی کوشش کر رہا ہے، یہ طرز عمل امن کے بجائے مستقل کشیدگی کا نظام قائم کر رہا ہے جبکہ علاقائی یا عالمی طاقتیں استحکام کو جنگ سے نہیں بلکہ امن کے ذریعے قائم رکھتی ہیں تاہم بھارت اس روایت سے ہٹ رہا ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ بھارت کا کردار ایک تضاد بن چکا ہے جو سلامتی تو چاہتا ہے مگر امن کا فراہم کنندہ بننے کو تیار نہیں، تاہم امن ہی واحد راستہ ہے جو پائیدار سلامتی اور استحکام کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کےدرمیان 2019 کے بعد کسی بھی سطح پر عسکری یا سویلین رابطہ موجود نہیں رہا، ان کا کہنا تھا کہ 87 گھنٹےکی جنگ خطرناک حد تک جوہری دہلیز کے قریب جاپہنچی تھی جس کی رفتار دنیا کے لیے تشویش ناک تھی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی بھارتی پالیسی ایک خطرناک روایت قائم کر رہی ہے، بھارت نہ صرف پانی بلکہ الفاظ کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جس سے مذاکرات کی گنجائش کم ہو رہی ہے، انہوں نے واضح کیا کہ ڈیجیٹل دنیا میں الفاظ کا ہتھیار بن جانا امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ مودی کا نوجوانوں کو روٹی یا گولی کا انتخاب دینے والا بیان غیر ذمہ دارانہ ریاستی پالیسی کا مظہر ہے ، یہ کوئی پرانی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے تاکہ جنگ بندی کو غیر مستحکم رکھا جا سکے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والا بحران علاقائی نہیں رہے گا، اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے، مسلسل کشیدگی اور عدم استحکام کوئی حکمت عملی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ پائیدار امن صرف ایک منظم اور مستقل مذاکراتی فریم ورک سے ہی ممکن ہے، جو وقتی نہیں بلکہ اصولی ہو، بھارت کی اسٹریٹجک حکمت عملی زبان اور بیانیےکو ہتھیار بناکر مذاکرات اور امن کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر دفاع کا ’آپ نے صرف ٹریلر دیکھا ہے‘ جیسے بیانات خطے کو مسلسل کشیدگی میں جھونک رہے ہیں، دنیا کو مکمل فلم کے انتظار کے بجائے اس ’ٹریلر‘ سے سبق لینا چاہیے اور بروقت کردار ادا کرنا چاہیے۔
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ حالیہ 87 گھنٹے کی جنگ اصل واقعہ نہیں بلکہ صرف ٹریلر تھا جو پاکستان کےمربوط ردعمل کا مظہر تھا، یہ جنگ بھارت کی اس اسٹریٹجی کا حصہ ہے جو خطےکو بالی ووڈ طرز کی مستقل کشیدگی میں مبتلا رکھنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا امن کے بیانیے کو محدود کرکے جنگی جذبات کو فروغ دے رہا ہے، بھارت کے مرکزی ٹی وی چینلز لاہور پر قبضے جیسے اشتعال انگیز دعوے کر رہے ہیں، بھارت اور پاکستان کے سنگین ماحولیاتی چیلنجز کے بجائے میڈیا میں پاکستان کو مٹانے کی باتیں ہورہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی بندرگاہ پر قبضے اور پاکستان کے نقشے سے مٹ جانے کے بیانات کھلی اشتعال انگیزی ہیں، ایسے بیانیے غیر رسمی سفارتی کوششوں کو ناکام بناتے ہیں اور نفرت کو فروغ دیتے ہیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ جنگ کے بعد بھارتی قیادت خود کو خطرناک وعدوں میں پھنسا چکی ہےجو وہ نبھا نہیں سکتی، انہوں نے واضح کیا کہ جنگ کے دوران پاکستان کی جوابی کارروائی صرف عسکری اہداف تک محدود اور مکمل طور پر قانونی تھی۔