اسرائیل کے وزیرِ دفاع نے صہیونی فوج کو غزہ تک امداد پہنچانے والی کشتی کو روکنے کا حکم دے دیا جس میں سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت 12 امدادی کارکن سوار تھے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ میں نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ وہ امدادی کشتی ’مدلین‘ فلوٹیلا کو غزہ پہنچنے سے روکے۔
بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ گریٹا ایک یہود مخالف ہے، اور اس کے ساتھی حماس کے پروپیگنڈا ترجمان ہیں، میں ان سے واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ واپس چلے جاؤ کیونکہ تم غزہ نہیں پہنچو گے۔
’مدلین‘ کے منتظمین نے ہفتے کو جاری بیان میں کہا تھا کہ وہ مصری پانیوں میں داخل ہو چکے ہیں اور غزہ کے قریب پہنچ رہے ہیں، جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع اپنے 21ویں ماہ میں داخل ہو چکا ہے۔
یاد رہے کہ ’مدلین‘ ایک کشتی ہے جسے فریڈم فلوٹیلا کولیشن چلا رہی ہے، یہ یکم جون کو اٹلی سے روانہ ہوئی تھی، جس کا مقصد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانا اور فلسطینی علاقے پر اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنا تھا۔
اسرائیل کاٹز کا کہنا تھا کہ اسرائیل کسی کو بھی غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی اجازت نہیں دے گا، جس کا مقصد حماس کو ہتھیاروں کی ترسیل روکنا ہے، جو ہمارے یرغمالیوں کو قید میں رکھے ہوئے ہے اور جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’اسرائیل سمندر، فضا یا زمین کے ذریعے ناکہ بندی توڑنے یا دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی کسی بھی کوشش کے خلاف کارروائی کرے گا‘۔
’آخری لمحے تک اپنا سفر جاری رکھیں گے‘
فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا ’اسرائیل کی جانب سے کسی بھی حملے یا ہمیں روکے جانے کی توقع ہے‘۔ انہوں نے ان ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کشتی پر سوار اپنے شہریوں کی حفاظت کریں۔
پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ ’مدلین‘ اس وقت غزہ سے 160 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے اور جمنگ (ریڈیو سگنل کی مداخلت) نے ہماری لوکیشن کو کچھ وقت کے لیے متاثر کیا، لیکن ہمارا ٹریکر دوبارہ کام کر رہا ہے۔
دریں اثنا، کشتی پر سوار امدادی کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ ’آخری لمحے تک‘ اپنا سفر جاری رکھیں گے۔
یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن نے کشتی سے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم آخری لمحے تک متحرک رہیں گے، جب تک اسرائیل انٹرنیٹ اور نیٹ ورکس بند نہیں کر دیتا جب کہ ہم 12 عام شہری ہیں جو کشتی پر سوار ہیں، ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں، صرف انسانی امداد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست نے کوئی ردعمل نہیں دیا، جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو ہمارے تحفظ کی کوئی ضمانت دیے بغیر بلا روک ٹوک کارروائی کی اجازت دی جا رہی ہے۔
ریما حسن نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ امدادی کارکنوں کے پاس ’اسرائیلی حکام کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے سے پہلے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت‘ رہ گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم آپ سے رابطہ نہیں رکھ پائیں گے، تو میں امید کرتی ہوں کہ آپ وہ مہم جاری رکھیں گے جو اس پورے سفر میں ہمارے لیے نہایت قیمتی رہی ہے جب کہ کشتی پر جرمنی، فرانس، برازیل، ترکی، سویڈن، اسپین اور نیدرلینڈز کے شہری موجود ہیں۔
جرمن انسانی حقوق کی کارکن یاسمین آچار کا کہنا تھا کہ ہمیں ان سے کوئی خوف نہیں، انہوں نے ہمیں جو پیغام بھیجا ہے کہ ہم قریب نہ آئیں، وہ ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر رہا۔
واضح رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان یہ تنازع 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوا، جس کے نتیجے میں 1218 اسرائیل ہلاک ہوئے تھے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں اب تک 54 ہزار 880 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔